LESSON 10 (Last): Miscellaneous

٭متفرقات٭
٭         قرآن کریم کی تلاوت شروع کرتے وقت تعوذ یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا ضروری ہے۔ شروع کرنے کے بعد جتنی سورتیں بھی پڑہیں سب کے شروع میں صرف تسمیہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا ضروری ہے۔
٭         ء اور ع کی ادائیگی بالکل صاف اور واضح ہو نی چاہیے۔ بہت سے لوگ تلاوت کے دوران اسے واضح نہیں پڑھتے ۔ جیسے اَوَأَمِنَ ۔ کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا کہ اَوَامِنَ یعنی الف مدہ پڑھا گیا ہے۔ ء اور ع کو ہمیشہ اس طرح پڑہیں جس طرح آپ ء اورع سے شروع ہونے والی آیت کو پڑھتے ہوئے پڑھتے ہیں۔آواز حلق سے نکلنی چاہیے۔
٭          لفظ اللہ کے لام سے پہلے زبر یا پیش ہوتو اس لام کو پُر پڑھا جائے گا۔ جیسے:  اَللّٰھُمَّ۔  اٰیَاتُ اللّٰہِ۔ اگر لفظ اللہ سے پہلے زیر ہوگی تو لام کو باریک پرھیں گے۔ جیسے:  بِسْمِ اللّٰہِ۔  بِاللّٰہِ۔
٭         لفظ اللہ کے سوا باقی ہر لام کو باریک پڑھیں گے، چاہے اس سے پہلے زبر اور پیش بھی ہو۔ جیسے  اَلْحَمْدُ۔  اُلْقِیَ۔
٭         اسی طرح اگر (ر) کے اوپر زبر یا پیش ہو تو اسے پُر پڑھیں گے جیسے۔اَمَرَ۔ کَرُبَ۔ اور اگررا پر زیر ہو تو اسے باریک پڑھیں گے جیسے  رِحْلَۃُ، رِجَال’‘۔ حِجْرِ۔
            نیز اگر را ساکن ہو تو اس سے پہلے حرف کو دیکھیں گے۔ اگر راساکن سے پہلے حرف پر ز بر یا پیش ہو تو اسے بھی پُر پڑھیں گے۔ جیسے  اَرْسَلَ۔ اُرْکُضْ۔ فَانْصُرْ
            اور اگر را ساکن سے پہلے زیر ہوتو اسے باریک پرھیں گے۔ جیسے  اِرْجِعِیْ
٭         الف مدہ اور کھڑی زبر یہ دونوں صرف لکھنے میں الگ ہیں پڑھنے میں بالکل ایک جیسے ہیں، بلکہ لکھنے میں بھی یہ دونوں ایک دوسرے سے بدل کر لکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً سورۃ الفاتحہ میں جو لفظ ہے  رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اگر آپ قرآن کریم کے بعض نسخے دیکھیں تو  اس میں یہ لفظ عَاکے بجائے ع پر کھڑی زبر کے ساتھ نظر آئے گا، اس طرح  رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔اسی طرح مٰلِکِ کو مَالِکِ بھی لکھ سکتے ہیں یعنی کھڑی زبر کے بجائے الف مدہ ، یا الف مدہ کے بجائے کھڑی زبر کے ساتھ۔ یہ غلطی نہیں بلکہ دونوں طرح لکھناٹھیک ہے۔ اسی طرح کھڑی زیر کے بجائے یا مدہ ، یا پھر یا مدہ کے بجائے کھڑی زیر۔ اور الٹی پیش کے بجائے واو مدہ ، یا واو مدہ کے بجائے الٹی پیش بھی لکھی جا سکتی ہے۔ البتہ پڑھنے میں یہ دونوں ایک ہی جیسے ہیں۔
٭         نون ساکن کے بعد اگر (ل) اور (ر) ہو تو وہ نون بالکل نہیں پڑھا جائے گا،نہ ہیجہ (Spaling) میں نہ رواں(Normal Reading) میں۔  جیسے مِنْ رَّحِیْقٍ، اَنْ لَّنْ ۔
٭         اسی طرح تنوین کے بعد اگر لام یا را آجائے تو اس تنوین میں دوزبر، دو زیر اور دو پیش کے بجائے ایک زبر ، ایک زیر اور ایک پیش پڑھیں گے، جیسے مَالًا لُّبَدًا۔ عِیْشَۃٍ الرَّاضِیَۃٍ۔ ہیجہ (Spaling) میں دو زبر، دو زیر اور دو پیش کا لفظ بولیں گے،رواں(Normal Reading) میں نہیں۔(مشق کی ضرورت ہے)
٭         قرآن کریم کو معروف انداز میں پڑھنا چاہیے ، مجہول انداز میں پڑھنا غلط ہے۔ مجہول انداز کسے کہتے ہیں مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہماری اردو زبان میں ایک حرف (ے) استعمال ہوتا ہے، قرآن کریم اور عربی زبان میں اس لفظ کی ادائیگی کرنا غلط ہے جس طرح ہماری زبان میں ہوتی ہے یعنی بڑے، چھوٹے، اچھے وغیرہ کی طرح۔ آگے جو میں مثال پیش کر رہا ہوں اس کو اسی طرح یعنی بڑے اور لے لو، جیسے انداز میں پڑھ کر چیک کریں۔مثال یہ ہے اَلْحَمْدَوْ لِلّٰہَے رَبَّے الْعَالَمَےْ نَ۔اس طرح پڑھنا اور پڑھانا بالکل سو فیصد غلط ہے۔ ہمارے ملک میں پہلے یہ غلطی بہت عام تھی جب بچوں کو کسی خاتون کے ہاں ناظرہ قرآن کریم پڑھانے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ اب الحمدللہ اس مسئلے میں فرق تو ہے لیکن اب بھی بہت سے لوگ اس غلطی کا شکار ہیں۔ برائے کرم اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ کر اس غلطی سے بچنے کی کوشش کریں۔
٭         پورے قرآن کریم میں صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں ایک لفظ مجہول پڑھا جائے گا۔ اس کے علاوہ پورے قرآن کریم میں کہیں بھی کوئی لفظ اس طرح نہیں پڑھا جائے گا۔ پارہ نمبر 12، سورۃ ھود، آیت نمبر 41شروع ہوتی ہے۔لکھا ہے بَسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖ ھَا وَمُرْسٰھَا۔ اس کو اس طرح پڑھیں گے،  بَسْمِ اللّٰہِ مَجْرَے ھَا وَمُرْسٰھَا۔اسے امالہ کہتے ہیں۔
٭         جیسا کہ دیباچہ میں عرض کیا گیا تھا کہ اس کتاب میں مشکل اصطلاحات اور قواعد سے ہٹ کوشش کی گئی ہے کہ ہر بات آسان انداز میں بیان کی جائے۔ اسی سلسلہ میں ایک اور بات کرنا چاہتا ہوں جو بہت سے لوگوں کو پریشان کرتی ہے کہ قرآن کریم میں بہت سی علامات ہوتی ہیں جیسے۔ ط، لا، م، ج، ق، ز، صلے وغیرہ۔ ان میں کہاںوقف کرنا چاہیے اور کہاں نہیں۔ اس کی مکمل تفصیل تو آپ کو قرآن کریم کے آخری صفحات میں مل جائے گی ، لیکن اگر آپ اس کو مختصراً (Short) یاد رکھنا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ جہاں ط اور م ہو وہاں رکنا چاہیے، جہاں لا ہو وہاں نہیں رکنا چاہیے، اور باقی جگہوں پر مرضی ہے رکیں یا نہ رکیں۔
٭         تلاوت کے آداب میں سے ہے کہ اگر تلاوت کرتے وقت آپ رک جائیں یعنی وقف کریں اور وہ جگہ وقف کرنے کی نہ ہو تو جب دوبارہ پڑھیں گے تو تھوڑا سا یعنی دو چار الفاظ پیچھے سے ملا کر پڑھیں گے۔      
                    تَمَّ بِحَمْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَبِعَوْنِہٖ

No comments:

Post a Comment